چراغاں
تیری راہ پر ہم نے کلیاں بکھیری تھیں
تیری راہ پر ہم نے کلیاں بکھیری تھیں
تارے سجائے تھے کیا کچھ کیا تھا
جو برسوں سے چاک و دریدہ چلا آ رہا تھا
جو برسوں سے چاک و دریدہ چلا آ رہا تھا
وہ اپنا گریباں سِیا تھا
نئے پھول مالی سے منگوائے تھے
نئے پھول مالی سے منگوائے تھے
بام و در پر نیا رنگ و روغن کیا تھا
کتابیں سلیقے سے رکھ دیں تھی
کتابیں سلیقے سے رکھ دیں تھی
بوتل ہٹا دی تھی گھر میں چراغاں کیا تھا
اگر عِلم ہوتا کہ تو آج کی شب نہ آئے گی
اگر عِلم ہوتا کہ تو آج کی شب نہ آئے گی
توحسبِ معمول رہتے
ترے غم کی مدھم سی آتش میں جلتے
ترے غم کی مدھم سی آتش میں جلتے
مگر تجھ سے دل کی حکایت نہ کہتے
نہ کہتے کہ اب اک رگ سے
نہ کہتے کہ اب اک رگ سے
اک ایک مُوئے بدن سے دھواں اُٹھ رہا ہے
جو ٹھیرا تھا اپنی خودی کی سرائے میں
جو ٹھیرا تھا اپنی خودی کی سرائے میں
وہ ضبطکا کارواں اُٹھ رہا ہے
تجھے آج تک خط نہ لکھا تھا اور آج بھی
تجھے آج تک خط نہ لکھا تھا اور آج بھی
نہ لکھتے کہ ہم مر رہے ہیں
نگاہوں سے سب کچھ بتاتے
نگاہوں سے سب کچھ بتاتے
اشارے سے کہتے کہ دل کو لہو کر رہے ہیں
مگر تیری غفلت نے
مگر تیری غفلت نے
{شاید تیرے شیوۂ امتحاں نے }
یہ منزل دکھا دی
کہ تھم تھم کے آنسو نکلتے تھے پہلے
یہ منزل دکھا دی
کہ تھم تھم کے آنسو نکلتے تھے پہلے
مگر آج تو دل کی ندّی چڑھا دی
اُٹھے تھے کہ جشنِ چراغاں منائیں
اُٹھے تھے کہ جشنِ چراغاں منائیں
مگر دل کے سارے دیئے سو گئے ہیں
چلے تھے کہ دنیا کو رستہ دکھائیں
چلے تھے کہ دنیا کو رستہ دکھائیں
اور اب جیسے جنگل میں خود کھو گئے ہیں
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں