نذرِ غالب
اس کشمکشِ ذہن کا حاصل نہیں کچھ اور
انکار کو ٹھکرائے نہ، اقرار کو چاہے
مفرور طلب رات کو حاصل کرے بن باس
مغرور بدن گرمیِ بازار کو چاہے
سنبھلے نہ خمِ زیست سے بوجھ آب و ہوا کا
آسائشِ دنیا درو دیوار کو چاہے
آنکھیں روشِ دوست پہ بچھتی چلی جائیں
اور دوست کہ طبعِ سرِ خود دار کو چاہے
قوم ایسی کہ چلتے ہوے اشعار سے مانوس
مضمون کے اس صورتِ دشوار کو چاہے
اک دل کہ بھرا آئے نہ سمجھے ہوے غم سے
اک شعر کہ پیرایہ ء اظہار کو چاہے
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں