پہلوئے شاہ میںیہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوںریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوںکا پتہ دیتی ہے
کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لئے
سالہاسال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لئے
سرخ محلوں میں جواں جسموںکے انبار لگے
کیسے ہر شاخ سے منہ بند، مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی ہیں تزینِ حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سبحان کی اُلفت کے بھرم کی خاطر
کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کرسکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ماتھوںکا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ
سہمی سہمی سی فضا میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے، فریاد کناں ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے
تو مری جاں! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میںمرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں