مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
تھکے ہوے کھڑکیوں کے چہرے
جلی ہوئی آسماں کی رنگت
سیاہ آفاق تک بگولے
لہو کے آتش فشاں کی ساعت
وجود پر ایک بوجھ سا تھا
نہ صبح وعدہ نہ شام فرقت
اسی مہیب آتشیں گھڑی میں
کسی کی دستک سنی تو دل نے
کہا کہ صحرا کی چوٹ کھائے
کوئی غریب الدیار ہو گا
یہ سچ کہ دل کی ہر ایک دھڑکن
تمہارے درشن کے واسطے تھی
حیات کا ایک ایک لمحہ
تمہاری آہٹ کا منتظر تھا
مگر ایک ایسے دیار غم میں
جہاں کی ہر چیز خشمگیں ہو
مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں