جاہ و جلال ، دَام و دِرَم ، اَور کتنی دیر؟
ریگ رواں پہ نقش قَدَم ، اَور کتنی دیر؟
اَب اور کتنی دیر یہ وَحشت، یہ ڈر، یہ خوف؟
گرد و غبارِ عہدِ ستم ، اور کتنی دیر؟
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیاں
یہ تمکنت یہ زعمِ کرم، اور کتنی دیر؟
پل بھر میں ہو رہے گا حساب نبود و بود
پیچ و خمِ وجود و عدم ، اور کتنی دیر؟
دَامن کےسارےچاک، گریباں کےسارےچاک
ہو بھی گئے بہم، تو بہم، اَور کتنی دیر؟
شام آ گئی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر؟