کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
کلبہ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار ہے
قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں