پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
رُوح ِقائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
چاند تارے کے پر چم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہاتھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا تھا حصارِ وطن