سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب
کھول کر کہئے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی
دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفہ روباہی
ہو اگر قوت فرعون کی درپردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللٰہی
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
من اے میر امم از تو داد خواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمارند
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر کیا ہے مرا اور شاعری کیا ہے
یہی شیخ حرم ہے کہ جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرو دلق اویس و چادر زہرا
حضور!ْ نذر کو ایک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں
بھروسہ کر نہیں کرسکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا