اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

اقبال - کیا نہیں اور غزنوی کا رگہ حیات میں

2/28/2013

کیا نہیں اور غزنوی کا رگہ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات

ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات

قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں 
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

احمد فراز - قائد اعظم کے بعد


پھول روتے ہیں کہ آئی نہ صدا تیرے بعد
غرقہٴ خوں ہے بہاروں کی ردا تیرے بعد


جاہ و منصب کےطلبگاروں نے یوں ہاتھ بڑھائے 
کوئی دامن بھی سلامت نہ رہا تیرے بعد

رنگِ گل اڑا اڑا بوئے گل لٹی لٹی

رنگِ  گل اڑا   اڑا  بوئے  گل  لٹی  لٹی
بلبلیں قفس میں ہیں بوم نغمہ بار ہے

کیا عجب دیار ہے

تارِ عنبکوت  کے جال  ہیں  بچھے ہوئے
لومڑی ہے گھات میں شیر کا شکار ہے

کیا عجب دیار ہے

شاہدہ حسن - یہاں کچھ پھول رکھے ہیں

2/25/2013

سُناہے کہ اب
خانقاہوں میں
اور مسجدوں میں
گھرو ں اور گلیوں میں
بازار میں
لوگ ہوں گے بغل گیر اِک دوسرے سے
نوازیں گے حرف ِ دعا سے

سُنا ہے
کہ طاقت کے ایوان کی سیڑھیوں پر
گلہری اور آہو کی سرگوشیوں پر
محبت کے آغاز کا کچھ گماں ہو رہاہے
یہی پیش بندی ہوئی ہے
کہ آئندہ
باز اور شکرے لڑیں اور نہ
دیوار پر بیٹھے لومڑ
نہ میدانی چوہے

اقبال - دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی


دلیل صبح  روشن ہے ستاروں کی  تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا  گیا  دور  گراں  خوابی

عروق مردہ  مشرق  میں  خون  زندگی  دوڑا
سمجھ سکتے  ہیں اس راز  کو سینا و فارابی

مسلماں کو مسلماں کر دیا  طوفان  مغرب  نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونیوالا ہے
شکوہ  ترکمانی ،  ذہن  ہندی ،  نطق  اعرابی

اقبال - وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی


وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی  کو  آج   ترستے   ہیں   منبر و محراب

سنی نہ مصر و فلسطین میں وہ اذاں میں نے
دیا  تھا  جسنے  پہاڑوں  کو  رعشہ  سیماب

اقبال - اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں


اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار     دلبرانہ    ،   کر دار      قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا    گیا   ہے    تیرا   جذب    قلندرانہ

اقبال - کیا نہیں اور غزنوی کا رگہ حیات میں


کیا   نہیں   اور  غزنوی   کا رگہ   حیات   میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات

ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں
نے   عربی   مشاہدات   نے   عجمی   تخیلات

قافلہ  حجاز  میں   ایک   حسین   بھی   نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

اقبال - در عجم گردیدم و ہم در عرب


در عجم  گردیدم  و ہم  در عرب
مصطفے نایاب و ارزاں ابو لہب

اقبال - شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت


شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت
تا  چراغ  یک  محمد بر فروخت

شب گزرتی دکھائی دیتی ہے

2/24/2013



شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن  نکلتا  دکھائی  نہیں  دیتا



اقبال - فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

مرد حق چوں اشتراں بارے برد
مرد حق بارے برد خارے خورد

اقبال - غلامی کیا ہے، ذوق حسن وزیبائی سے محرومی



غلامی کیا ہے، ذوق حسن وزیبائی سے محرومی
جسے  زیبا  کہیں  آزاد  بندے،  ہے  وہی  زیبا

بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت  پر
کہ دنیا میں فقط  مردانِ حر کی  آنکھ  ہے  بینا 

جالب - تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا


تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا
اسکو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا


عجب دیوار اک دیکھی ہے میں نے آج رستے میں


عجب دیوار اک دیکھی ہے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار کے آگے نہ کچھ دیوار کے پیچھے

اصغر گونڈوی - غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے


غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

پربھا - میں آپ اپنی تلاش میں ھوں میرا کوئ رھنما نھیں ھے

میں آپ اپنی  تلاش  میں  ہوں میرا  کوئ  رھنما  نھیں  ھے
وہ  کیا بتائیں  گے راہ مجھکو کہ جن  کو اپنا پتا  نھیں ھے

یہ انکے مندر یہ انکی مسجد  یہ  بتکدے  اور  سجدہ گاھیں
اگر یہ انکے خدا کے گھر ھیں تو ان میں میرا خدا نھیں ھے

شعور سجدہ نھیں ھےمجھکو تم میرےسجدوں کی لاج رکھ لو
یہ سر تیرے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نھیں ھے

عجیب  شغل وفا ھے  جاری ، خدا  کو  چھوڑا  بنے  پجاری
صنم پرستو ں سے کوئ کہدے صنم صنم ہے خدا نھیں ھے

شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر ہے

شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر ہے
کہ اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں


فیض - ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی

ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی
جس بار خزاں آئي سمجھے کہ بہار آئي

آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی

لرزتا ہے میرا د ل زحمت مہردرخشاں پر

لرزتا  ہے  میرا  د ل زحمت مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرہ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

اقبال - آں مسلماناں کہ میری کردہ اند


آں مسلماناں کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی، فقیری کردہ اند

فیض - روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں


روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں 
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں 

اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں 
گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں 

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر 
کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں 

ان میں لُہو جلا ہو، ہمارا، کہ جان و دل 
محفل میں کچھ چراغِ فروزاں ہوئے تو ہیں 

ہاں کج کر و کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم 
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں 

اہلِ قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ 
بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں 

ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیض 
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں


غالب - کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو

کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینہ میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تم ہی تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسماں کیوں ہو

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں 
عدو کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
تِرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو


فیض - صبا نے پھر در زنداں پر آ کے دی دستک

صبا نے پھر در زنداں  پر آ  کے  دی  دستک
سحر قریب   ہے دل  سے کہو   نہ   گھبرائے

اقبال - تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محسشرعذرہاۓ من پذیر

گر تو می بینم حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر


اقبال - لا کر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں

لا کر برہمنوں کو سیاست کے بیچ  میں
زناریوں کو   دیر کہن  سے  نکال  دو

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن   سے نکال  دو

فکر عرب  کو  دے  کے فرنگی  تخیلات
اسلام  کو  حجاز و یمن   سے  نکال   دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے    نکال   دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال   دو



شورش - قرن اول کی روایت کا نگہدار حسین

قرن اول کی روایت کا نگہدار حسین
بسکہ تھا لخت دل حیدر کرار حسین

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآن حکیم
وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حسین

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو
اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں
عزت خواجۂ گیہاں کا نگہدار حسین

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور
عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا
حق کی آواز صداقت کا طرفدار حسین

وائے یہ جور جگر گوشۂ زہرا کے لئے
ہائے نیزے کی انی پر ہے جگر دار حسین

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی
ہر زمانے کے لئے دعوت ایثار حسین

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے
دور حاضر کے یزیدوں سے ہے دو چار حسین

شورش - ستم نواز مسخرے

سن ۱۹۷۲ میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں اُن کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کی طرف سے کراچی میں اردو کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلانے کے موقع پر لکھی گئی

عوام ہیں سَتائے جا
ابھار کر مِٹائے جا
چراغ ہیں بُجھائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
ترا بڑا مَقام ہے
تو مردِ خوش خرام ہے
اٹھائے جا، گِرائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
سِتم نواز مَسخرے
عَجب ہیں تیرے چوچلے
عوام کو نَچائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
قَبائے شب ادھیڑ کر
غزل کا ساز چھیڑ کر
گُلال ہیں لُٹائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
رَوِش روش چَمن چَمن
نَگر نَگر، دَمَن دَمَن
قیامتیں اُٹھائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
مزہ ہے تیرے ساتھ میں
سُبو ہے تیرے ہاتھ میں
شراب ہے پِلائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
تَھرک تَھرک، مَٹک مَٹک
اِدھر اُدھر لَٹک لَٹک
مزاجِ یار پائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
لَہوتِری غذا سہی
تو رِند پارسا سہی
حِکایتیں سُنائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
یہ چال کَٹ ہی جائے گی
یہ دال بَٹ ہی جائے گی
ابھی تو ہَمہَمائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
خُدا کا خوف چھوڑ کر
وَطن کی باگ موڑ کر
نشان ہیں لگائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
لُقَندروں کی فوج ہے
اِسی میں تیری موج ہے
حرام مال کھائے جا

شورش - ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں

سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں

بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں

از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں

جانشینیان کلایو تھے خداوند مجاز
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں

حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے

شورش - زور بیان و قوت اظہار چھین لے

زور بیان و قوت اظہار چھین لے
مجھ سے مرے خدا مر ے افکار چھین لے

کچھ بجلیاں اتار  قضا کے لباس میں
تاج و کلاہ و جبہ و دستار چھین لے

عفت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر
نظارہ ہائے گیسو و رخسار چھین لے

شاہوں کو ان کے غرۃ بے جا کی دے سزا
محلوں سے ان کی رفعت کہسار چھین لے

میں اور پڑھوں قصیدۂ ارباب اقتدار
میرے قلم سے جرأت رفتار چھین لے

ارباب اختیار کی جاگیر ضبط کر
یا غم زدوں سے نعرۂ پیکار چھین لے









میر - ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

ہم  ہوئے  تم  ہوئے کہ  میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے  سے  دوا  لیتے  ہیں

اقبال - وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو گسوں میں

2/23/2013


وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی 
مجھے  بتا  تو سہی اور  کافری  کیا  ہے 








انیس - خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم


خیال  خاطر   احباب  چاہیے  ہر دم 
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

غالب - کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیدار کہ ہم


کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیدار کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں جو تیر قضا ہوتا ہے 


اقبال - سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب


سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب 
کھول کر کہئے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی 

دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ 
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفہ روباہی 

ہو اگر قوت فرعون کی درپردہ مرید 
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللٰہی 

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

من اے میر امم از تو داد خواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمارند


خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر کیا ہے مرا اور شاعری کیا ہے

یہی شیخ حرم ہے کہ جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرو دلق اویس و چادر زہرا

حضور!ْ نذر کو ایک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں

بھروسہ کر نہیں کرسکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا 


طارق - ہم وہ سیاہ بخت ہیں طارق کہ شہر میں


ہم وہ سیاہ بخت ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دوکان کفن کی سب مرنا چھوڑ دیں

اقبال - خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہہ و میر و پیر


خلق خدا کی  گھات  میں رند و فقیہہ و میر و پیر 
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی 


اقبال - کشت دہقانان بہ بیاباں فروختند


کشت  دہقانان  بہ   بیاباں  فروختند 
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

رو میں رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے


رو میں رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں 


حفیظ - ابھی تو میں جوان ہوں

ابھی تو میں جوان ہوں 

ہوا بھی خوش گوار ہے 
گلوں پہ بھی نکھار ہے 
ترنّمِ ہزار ہے 
بہارِ پُر بہار ہے 

کہاں چلا ہے ساقیا 
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ 
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا 
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا 

سبُو اٹھا، پیالہ بھر 
پیالہ بھر کے دے اِدھر 
چمن کی سمت کر نظر 
سماں تو دیکھ بے خبر 

وہ کالی کالی بدلیاں 
افق پہ ہو گئیں عیاں 
وہ اک ہجومِ مے کشاں 
ہے سوئے مے کدہ رواں 

یہ کیا گماں ہے بد گماں 
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں 
خیالِ زہد ابھی کہاں 
ابھی تو میں جوان ہوں 

عبادتوں کا ذکر ہے 
نجات کی بھی فکر ہے 

جنون ہے ثواب کا 
خیال ہے عذاب کا 

مگر سنو تو شیخ جی 
عجیب شے ہیں آپ بھی 
بھلا شباب و عاشقی 
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی 

حسین جلوہ ریز ہوں 
ادائیں فتنہ خیز ہوں 
ادائیں عطر بیز ہوں 
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں 

نگار ہائے فتنہ گر 
کوئی اِدھر کوئی اُدھر 
ابھارتے ہوں عیش پر 
تو کیا کرے کوئی بشر 

چلو جی قصّہ مختصر 
تمھارا نقطۂ نظر 
درست ہے تو ہو مگر 

ابھی تو میں جوان ہوں 

نہ غم کشود بست کا 
بلند کا نہ پست کا 
نہ بود کا نہ ہست کا 
نہ وعدۂ الست کا 

امید اور یاس گم 
حواس گم، قیاس گم 
نظر کے آس پاس گم 
ہمہ بجز گلاس گم 

نہ مے میں کچھ کمی رہے 
قدح سے ہمدمی رہے 
نشست یہ جمی رہے 
یہی ہما ہمی رہے 

وہ راگ چھیڑ مطربا 
طرب فزا، الم رُبا 
جگر میں آگ دے لگا 
ہر ایک لپ پہ ہو صدا 
پلائے جا پلائے جا 

ابھی تو میں جوان ہوں 

یہ گشت کوہسار کی 
یہ سیر جوئبار کی 

یہ بلبلوں کے چہچہے 
یہ گل رخوں کے قہقہے 

کسی سے میل ہو گیا 
تو رنج و فکر کھو گیا 
کبھی جو بخت سو گیا 
یہ ہنس گیا وہ رو گیا 

یہ عشق کی کہانیاں 
یہ رس بھری جوانیاں 
اِدھر سے مہربانیاں 
اُدھر سے لن ترانیاں 

یہ آسمان یہ زمیں 
نظارہ ہائے دل نشیں 
انھیں حیات آفریں 
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں 
ہے موت اس قدر قریں 
مجھے نہ آئے گا یقیں 
نہیں نہیں ابھی نہیں 

ابھی تو میں جوان ہوں 

ساحر - یہ فصل گل کہ جسے نفرتوں نے سینچا ہے

یہ فصل گل کہ جسے نفرتوں نے سینچا ہے
اگر پھلی تو شراروں کے پھول لائے گی

نہ پھل سکی تو نئ فصل گل کے آنے تک
ضمیر ارض میں اک زہر گھول جاۓ گی

شاہدہ حسن - مرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے


مرا  نشیمن  بکھر نہ  جائے، ہوا قیامت  کی چل  رہی  ہے
جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نہ جانے کیوں اضطرار سا ہے، ہر اِک پل بے قرار سا ہے
یہ خوف دل میں اُتر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

عجب سی ساعت ہے آج سر پر، کہ آنچ آئی ہوئی ہے گھر پر
دعا کہیں بے اثر نہ  جائے ،  ہوا  قیامت کی چل  رہی  ہے

یہ سجدہ گاہیں یہ فرش و منبر، جو ہیں ہمارے ہی خون سے تر
لہو کی یہ رُت ٹھہر نہ جائے ، ہوا قیامت  کی  چل  رہی  ہے

یہ کن دکھوں میں سلگ رہے ہیں،دماغ بارود لگ رہے ہیں
رگوں میں یہ زہر بھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رُتوں کے تیور نہیں ہیں اچھے، بدل چکے دوستوں کے لہجے
یہ سیلِ نفرت بپھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نشانِ منزل تو ہے فروزاں مگر ہم ایسے مسافروں کی
کہیں اُسی پر نظر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رفاقتوں کا خیال  رکھنا، دلوں  کو پیہم  سنبھال  رکھنا
بچھڑ کوئی ہم سفر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

سدا مُقدّم ہے تیری حُرمت، مرے وطن تورہے سلامت
وفا کا احساس مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے


بلھے شاہ - حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے


حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پیر دا جے سر دا سائیں مرے

ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کتی مرے فقیر دی، جیڑی چوں چوں نت کرے 

پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے


شاہ مقیم کے دربار میں ایک دہقان زادی عرض گزار ہے
میں ایک بکرے کی قربانی دوں، اگر میرے شوہر کو قضا اچک لے جائے ۔
 بنیے کی دوکان کو آگ لگ جائے کہ جہاں چراغ جلتا رہتا ہے۔
 فقیر کی کتیا مر جائے جو ہمیشہ راہگیروں پر بھونکتی ہے۔
 پانچ سات پڑوسنیں مر جائیں، باقی بیمار ہوں۔
 گلیاں ویران ہوجائیں اور ان میں میرا محبوب بے خوف گھومتا پھرے

متفرقات - قریب آؤ دریچوں سے جھانکتی کرنو

قریب آؤ  دریچوں  سے  جھانکتی  کرنو
کہ ہم تو پا بہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے
...
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ گل
یہی  ہے فصل بہاری یہی ہے باد مراد
....
جیسے پت جھڑ کے درختوں کی سمٹتی چھاؤں
جیسے آسیب زدہ شہر  کے سہمے ہوئے  گھر

امیر الاسلام ہاشمی - اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہٴ گندم کہ جلاؤں
شاہین کا ہے گنبد شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرو مایہ کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

ہر داڑھی میں تنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

شاہیں کا جہاں آج بھی کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مُلا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

مَر مَر کی سِلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ، زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا، ہم چھٹ گئے اس بار گراں سے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے، ذاتوں کے، نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہٴ گل، خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا، مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانیٴ جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر، مر کے جئے جائے ہے، جی، جی کے مرے ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیرو سناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سو گئی طاؤس پہ آکر
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں

کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں