اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

شاہدہ حسن - یہاں کچھ پھول رکھے ہیں

2/25/2013

سُناہے کہ اب
خانقاہوں میں
اور مسجدوں میں
گھرو ں اور گلیوں میں
بازار میں
لوگ ہوں گے بغل گیر اِک دوسرے سے
نوازیں گے حرف ِ دعا سے

سُنا ہے
کہ طاقت کے ایوان کی سیڑھیوں پر
گلہری اور آہو کی سرگوشیوں پر
محبت کے آغاز کا کچھ گماں ہو رہاہے
یہی پیش بندی ہوئی ہے
کہ آئندہ
باز اور شکرے لڑیں اور نہ
دیوار پر بیٹھے لومڑ
نہ میدانی چوہے


سُنا ہے
کہ جنگل کے آئین میں
ایک ترمیم پر غور ہونے لگاہے
کہ اب
شیر بکری سے ملنے کی خود ہی تمنا کرے تو
مناسب رہے گا

دُعا ہے
کہ جو کچھ سماعت میں گونجا ہوا ہے
وہ بینائی تک آتے آتے
بدلنے نہ پائے
یہ اِک فیصلے کی گھڑی
اب کے ٹلنے نہ پائے


التجا بحضور خلّاق عالم
اے مرے آقا
بہت نا مطمئن دن ہیں
بہت نا مطمئن راتیں
ہمارے وہم کے سارے دریچوں پر
ہلاکت کے مناظر ثبت ہیں
اک حشر برپا ہے

جدھر بھی دیکھتی ہوں
وحشتیں ہیں
اور سروں پر
خوف کی چادر تنی ہے

یہ زمانہ اپنے استبداد کی پھیلی ہوئی
پرچھائیوں میں بٹ گیا ہے
خیر کے سب راستوں سے ہٹ گیا ہے
رو ح سے ہر جسم جیسے کٹ گیا ہے

سوچ کی راہیں
الجھتی جارہی ہیں
ساری تدبیریں ہی
گم راہی کی جانب ہیں
نگاہیں تھک گئی ہیں
اور یہاں ہر سو
شکاری جال پھیلے ہیں
بہ کثرت حملہ آور ہیں
کہ جن کی دشمنی 
تلوار کی صورت برہنہ ہے

ہمارے مشترک دشمن کی سازش ہے
کہ اب جتنی کمانیں
اور ترکش ہوں ہمارے ہاتھ میں
اُن سب کے رُخ خود ہوں ہمارے
جسم کی جانب
  
ہمیں پامال کرنے کی تمنا کرنے والے اب
ہماری ہی صفوں سے
اپنے حامی چُن رہے ہیں
اور ہمارے گرد
کوئی جال جیسے بُن رہے ہیں

اے مرے آقا 
مرے اے رحمتہ للعالمین
یہ بستیاں
جو آپ ہی کے نام لیواؤں کی ہیں
افلاس کی سرحد پہ بیٹھی رو رہی ہیں
اپنی جانیں
کھو رہی ہیں

آپ سے بس التجا یہ ہے
ہمارے جہل کو
اک بار پھر
اقرا کے حرف ِ اولیں کی
روشنی دے دیں
ہمیں ان موت کے لمحوں میں
پھر سے زندگی دے دیں