اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

اقبال ـ گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر

11/28/2013


گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر

عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تو ہے محیط بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر

نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر

روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر

اقبال ـ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے

11/06/2013


ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا ، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے



اقبال ـ اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا

اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا؟

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب ، لامکاں تیرا ہے یا میرا؟

اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا ، وہ راز داں تیرا ہے یا میرا؟

محمد بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟

اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟

اقبال ـ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

 میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں

گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں

گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں

متفرقات - دسترس میں نہیں ہیں حالات تجھے کیا معلوم

10/29/2013



دسترس میں نہیں ہیں حالات تجھے کیا معلوم
اب ضروری ہے ملاقات تجھے کیا معلوم

رات کے پچھلے پہر نیند شکن تنہائی
کیسے کرتی ہے سوالات تجھے کیا معلوم

تو بہ ضد ہے کہ سرعام پرستش ہو تیری
میں ہوں پابند روایت تجھے کیا معلوم

جشن ساون کا یوں بڑھ چڑھ کے منانے والے
ظلم کیا ڈھاتی ہے برسات تجھے کیا معلوم

شانہء وقت پہ اب زلف پریشان کی طرح
بکھری رہتی ہے میری ذات تجھے کیا معلوم

صدا باتیں تھیں اس کی مگر ان میں کہیں
چپ تھے رنگین خیالات تجھے کیا معلوم

نصیر - سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں

دین سے دور ، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں 

ڈھنگ کی بات کہے کوئی، تو بولوں میں بھی
مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں

بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے
مطمئن دل ہے بہت، جب سے الگ بیٹھا ہوں

غیر سے دور، مگر اُس کی نگاہوں کے قریں
محفلِ یار میں اس ڈھب سے الگ بیٹھا ہوں

یہی مسلک ہے مرا، اور یہی میرا مقام
آج تک خواہشِ منصب سے الگ بیٹھا ہوں

عمرکرتا ہوں بسر گوشہء تنہائی میں
جب سے وہ روٹھ گئے، تب سے الگ بیٹھا ہوں

میرا انداز نصیر اہلِ جہاں سے ہے جدا
سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں

نامعلوم ـ جوانی، حسن،​ غمزے، عہد و پیماں، قہقہے، نالے


جوانی، حسن،​ غمزے، عہد و پیماں، قہقہے، نالے
یہاں ہر چیز بکتی ہے خریدارو، بتاؤ کیا خریدو گے؟

متفرقات - مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو


مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے 
نہ جانے مجھے کیوں یقیں ہو چلا ہے 
میرے پیار کو تم مٹا نہ سکو گے 
مری یاد ہوگی جدھر جاؤ گے تم 
کبھی نغمہ بن کے کبھی بن کے آنسو 
تڑپتا مجھے ہر طرف پاؤ گے تم 
شمع جو جلائی ہے میری وفا نے 
بجھانا بھی چاہو بجھا نہ سکو گے 
کبھی نام باتوں میں آیا جو میرا 
تو بےچین ہو ہو کے دل تھام لو گے 
نگاہوں میں چھائے گا غم کا اندھیرا 
کسی نے جو پوچھا سبب آنسوؤں کا 
بتانا بھی چاہو بتا نہ سکو گے 

حسرت - خرد کا نام جنوں پڑھ گیا ' جنوں کا خرد


نگاہ_ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

خرد کا نام جنوں پڑھ گیا ' جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن_ کرشمہ ساز کرے

تیرے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

*****

ہجر میں پاس میر ے اور تو کیا رکھا ہے
اک تیرے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

کیفی ۔ رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

9/05/2013


رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسےکبھی جاتا نہیں کوئی

​ اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہوگی
یوں موت کو سینے سے لگاتا نہیں کوئی

ڈرتا ہوں کہیں خشک نہ ہو جائے سمندر
راکھ اپنی کبھی آپ بہاتا نہیں کوئی

ساقی سے گلا تھا تمہیں، میخانے سے شکوہ
اب زہر سے بھی پیاس بجھاتا نہیں کوئی

مانا کہ اجالوں نے تمہیں داغ دیئے تھے
بے رات ڈھلے شمع بجھاتا نہیں کوئی

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسےکبھی جاتا نہیں کوئی

معین نظامی ۔ میں انہی کھرچے ہوئے لفظوں کا وارث ہوں

8/29/2013


میرے اجداد کے گرتے ہوئے حجرے کے محراب خمیدہ میں
کسی صندل کے صندوق تبرک میں
ہرن کی کھال پر لکھا ہوا شجرہ بھی رکھا ہے
کہ جس پر لاجوردی دائروں میں
زعفرانی روشنائی سے مرے سارے اقارب کے مقدس نام لکھے ہیں
مگر اک دائرہ ایسا بھی ہے
جس میں سے لگتا ہے
کہ کچھ کھرچا گیا ہے
میں انہی کھرچے ہوئے لفظوں کا وارث ہوں

فیض ۔ ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

8/22/2013

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایۂ در تو دیکھو

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے 
ناصحو ، پندگرو ، راہگزر تو دیکھو

وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے 
اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو

وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں 
دیکھنے والو کبھی ان کا جگر تو دیکھو

دامن درد کو گلزار بنا رکھا ہے 
آؤ اک دن دل پرخوں کا ہنر تو دیکھو

صبح کی طرح جھمکتا ہے شب غم کا افق 
فیض ، تابندگئ دیدۂ تر تو دیکھو

متفرقات ۔دیوانے ہیں وحشت میں بہت رقص کریں گے

7/23/2013


دیوانے ہیں وحشت میں بہت رقص کریں گے 
دیکھیں گے یہ زنجیر جنوں کتنی کڑی ہے

ازہر ۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

6/06/2013


میرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی

مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی

میں دیکھتا ہوں ہر سمت پنچھیوں کے ہجوم
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی

قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو
کہ سرکشوں کو تو عادت ہے سر اٹھانے کی

شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہرٹھکانے کی

ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی

ساحر ۔ کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے


کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی
تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 
یہ رنج و غم کی سیاہی جو دل پہ چھائی ہے 
تیری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی 
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے 
کہ تو نہیں، تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں۔ 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
اِسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ 
مچل رہی ہے اندھیروں میں زندگی بھی 
انہی اندھیروں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 
میں جانتا ہوں میرے ہم نفس 
مگر یوں ہی 

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم ہو کر 
تیرے جمال کی رعنائوں میں کھو رہتا 
تیرا گداز بدن تیری نیم باز آنکھیں 
انہی حسین فسانوں میں محو رہتا 
پکارتیں جب مجھے تلخیاں زمانے کی 
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ‌ پی لیتا 
حیات چیختی پھری برہنہ سر اور میں 
گھنیری زلفوں کے سائے میں‌ چھپ کے جی لیتا 
مگر یہ نہ ہو سکا اور اب یہ عالم ئے 
کہ تو نہیں ترا غم تری جستجو بھی نہیں 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں‌ گلے 
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے 
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں 
حیات و موت کے پر ہول خار زاروں سے 
نہ کوئ جدو منزل نہ روشنی کا سراغ 
بھٹک رہی ہے خلاؤں‌ میں زندگی میری 
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں کا کبھی کھو کر 
میں جانتا ہوں میری ہمنفس مگر یونہی
 
کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے 
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے 
تو اب سے پہلے ستاروں میاں بس رہی تھی کہیں 
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں 
یہ گیسوئوں کی غنی چھاؤں ہیں میری خاطر 
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کہ جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں 
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں 
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی 
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی 
میں جانتا ہوں تگ ہر ہے مگر یوں ہی 

کبھی کبھی میرے دل میں‌خیال آتا ہے 
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں 
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 
یہ تیرگی جو میری زیست کا مقدر ہے 
تیری نظر کی شعاعوں‌میں‌کھو بھی سکتی تھی 
عجب نہ تھا کہ میں‌ بے گانہ الم ہو کر 
تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا 
تیرا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں 
انہی حسین فسانوں میں‌محو ہو رہتا 
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی 
تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا 
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں 
گھنیری زلفوں کے سایہ میں‌چھپ کے جی لیتا
 
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے 
کہ تو نہیں‌تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
زمانے بھر کے دکھوں کا لگا چکا ہوں گلے 
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں‌ سے 
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں 
حیات و موت کے پرہول خارزاروں سے 
نہ کوئی جادہ منزل نہ روشنی کا چراغ 
بھٹک رہی ہے خلاؤں ‌میں ‌زندگی میری 
انہی خلاؤں میں‌ رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 
میں‌ جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی 
کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے

خسرو ۔ فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم


عاشق شدم و محرم ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم 
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم
بسیار شدم عاشق دیوانہ ازیں پیش 
آں صبر کہ ہر بار بود ایں بار ندارم
دل پر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن 
از تنگ دلی طاقت گفتار ندارم
خوں شد دل خسرو ز نگہداشتن راز 
چوں ہیچ کسے محرم اسرار ندارم

مومن ـ میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

5/28/2013


شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے
------------
اس نقش پا کے سجدے نےکیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
------------
کچھ نہیں نظر آتا آنکھ لگتے ہی ناصح
گر نہیں یقیں حضرت، آپ بھی لگا دیکھیں
------------ 
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم 
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم 
------------ 
ہرگز نہ رام وہ صنم سنگدل ہوا 
مومن ہزار حیف کہ ایماں عبث گیا

نامعلوم ۔ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا


تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا


تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اقبال ـ ز من بر صوفی و ملا سلامی


ز من بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند ما را 

ولی تأویل شان در حیرت انداخت 
خدا و جبرئیل و مصطفی را


قتیل ـ پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے


پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہ یار کہے مان جائیے 

پہلے مزاج رہگزر جان جائیے 
پھر گرد راہ جو بھی کہے مان جائیے 

کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں 
میری سنیں تو دل کا کہا مان جائیے 

اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس 
یہ آپ ہیں تو آپ کے قربان جائیے 

شاید حضور سے کوئی نسبت ہمیں بھی ہو 
آنکھوں میں جھانک کر ہمیں پہچان جائیے 

مومن ـ وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


ظفر ـ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں


لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں 
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں 

کہہ دوان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں 
اتنی جگہ کہاں‌ ہے دل داغدار میں 

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن 
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

اتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیئے 
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

ظفر ـ جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر


خامشی اچھی نہیں ، انکار ہونا چاہیئے
اور یہ تماشہ اب سر بازار ہونا چاہیئے

خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی 
پہلے انہیں خواب سے بیدار ہونا چاہیئے 

اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات 
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہیئے 

بات پوری ہے ادھوری چاہیئے اے جان جاناں 
کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہیئے 

دوستی کے نام پر کیجیئے نہ کیونکر دشمنی 
کچھ نہ کچھ آخر طریقہ کار ہونا چاہیئے 

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر 
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے 

ساحر - بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے

بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے
گر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے

فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے

لب خنداں کی قسم دیدہء گریہ کی قسم


مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب
لب خنداں کی قسم دیدہء گریہ کی قسم

غالب ـ ابن مریم ہوا کرے کوئی


ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

منیر نیازی ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیر کر دیتا ہوں میں


ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو 
اُسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

مدد کرنی ہو اسکی یار کی ڈھارس بندھانا ہو 
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
 کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو 

ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیر کر دیتا ہوں میں

اوریا مقبول جان ​ر​ت بدلتی ہی نہیں موسم بدل جانے کے بعد


​ر​ت بدلتی ہی نہیں موسم بدل جانے کے بعد 
رات ڈھلتی ہی نہیں ہے دن نکل آنے کے بعد 

موسم بے رنگ میں شہر شکستہ خواب میں 
کچھ نہیں بدلا مکینوں کے بدل جانے کے بعد 

اک عذاب حبس حرف حق ہے سینے پر گراں 
دم کہاں آئے کسی دم، دم نکل جانے کے بعد 

کون در کھولے گا اب ہجرت نصیبوں کے لئے 
کس کے گھر جائیں گے اب گھر سے نکل جانے کے بعد 




فخر ہمایوں - میرا مزار

میرا مزار

یہیں کہیں اک سیاہ شب میں
مجھے خود اپنے ہی دوستوں نے
لپیٹ کر مجھ کو،
حسرتوں سے بھرے کفن میں
غسل مجھے دے کے آنسووں میں
یہیں کہیں پر دبا دیا ہے، 
مٹا دیا ہے

فخر ہمایوں

کلیم عاجز - تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

4/20/2013

میرے  ہی  لہو  پر  گزر  اوقات  کرو  ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن  ایک ستم ،  ایک  ستم  رات  کرو  ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو، دُور سے کیا بات کرو ہو

ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھُلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو

یوں تو ہمیں منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب  وقت  پڑے  ہے  تو  مدارات  کرو  ہو

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم  قتل   کرو   ہو   کہ   کرامات   کرو  ہو

بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے، بکے ہے
دیوانہ ہے ،  دیوانے  سے  کیا  بات  کرو  ہو

ساحرلدھیانوی - بہت دنوں سے ہے، یہ مشغلہ سیاست کا

4/14/2013

بہت دنوں سے ہے، یہ مشغلہ سیاست کا 
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں

بہت دنوں سے ہے یہ خبط حکمرانوں کا 
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں 

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے 
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں 

جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاوٴں سے 
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں 

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار 
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار 
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں 

میر - کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا

4/05/2013


کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دلِ زار تھا
کبھو درد تھا، کبھو داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو وار تھا

دمِ صبح بزمِ خوشِ جہاں، شب غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دُود تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا

دلِ خستہ جو لہو ہوگیا، تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھوسوز سینہ سے داغ تھا ، کبھو درد و غم سے فگار تھا

دل مضطرب سے گزرگئی، شبِ وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا، نہ فراغ تھا، نہ شکیب تھا، نہ قرار تھا

جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہیں وہ ناوکِ بے خطا، کسو کے کلیجے کے پار تھا

یہ تمہاری ان دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خونچکاں
وہی آفتِ دلِ عاشقاں، کسو وقت ہم سے بھی یار تھا

نہیں تازہ دل کی شکستگی، یہی درد تھا، یہی خستگی
اُسے جب سے ذوقِ شکار تھا، اِسے زخم سے سروکار تھا

کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا 

مومن - شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن

3/27/2013

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی  وعدہ  یعنی  نباہ   کا  ، تمہیں  یاد  ہو کہ   نہ  یاد   ہو
------------
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات   کاٹی  خدا   خدا   کر  کے
------------
اس نقش پا کے سجدے نےکیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ  رقیب  میں بھی سر کے بل   گیا
------------
کچھ  نہیں   نظر  آتا   آنکھ  لگتے   ہی  ناصح
گر نہیں یقیں حضرت، آپ بھی لگا دیکھیں
------------
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب  کوئی  دوسرا  نہیں  ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ  دنیا  میں  کیا  نہیں  ہوتا 

------------ 
ہنستے  جو  دیکھتے   ہیں  کسی   کو   کسی  سے  ہم 
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم 
------------ 
ہرگز  نہ  رام  وہ  صنم  سنگدل   ہوا 
مومن ہزار حیف کہ ایماں عبث گیا 
------------ 
پیہم  سجود  پائے  صنم  پر  دم  و  داع 
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں 
------------ 
پروانے کو کس لیے جلایا  تھا اے شمع 
بے جرم کو  خاک میں  ملایا  اے شمع


مومن - منّتِ حضرتِ عیسٰی نہ اٹھائیں گے کبھی

3/23/2013

منّتِ   حضرتِ   عیسٰی   نہ    اٹھائیں    گے  کبھی
زندگی   کے   لیے   شرمندۂ   احساں   ہوں  گے؟

چاکِ پردہ سے یہ غمزے ہیں، تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا  کہ سبھی  چاک گریباں  ہوں  گے
  
پھر   بہار   آئی     وہی     دشت     نوردی     ہوگی
پھر   وہی   پاؤں ،  وہی    خارِ  مُغیلاں   ہوں   گے
 
سنگ  اور  ہاتھ  وہی  ،  وہ    ہی  سر  و  داغِ  جنوں
وہی ہم ہوں گے، وہی  دشت  و  بیاباں  ہوں  گے
 
عمر   ساری    تو    کٹی  عشقِ  بتاں   میں    مومن
آخری  وقت  میں  کیا  خاک  مسلماں  ہوں   گے

مومن - ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے


ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے
تابِ نظّارہ نہیں ، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر، جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی ، کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سن اے موجِ ہوا ، بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

مومن - دیدہ حیراں نے تماشا کیا

دیدہ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا، کیا کیا

انک نہ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا

 مر گئے اس کے لب جاں بخش پر
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا

غیر عیادت سے برا مانتے
قتل کیا آن کے اچھا کیا

جاے تھی تیری میرے دل میں سو ہے
غیر سے کیوں شکوۂ بے جا کیا

رحم فلک اور مرے حال پر
تو نے کرم اے ستم آرا کیا

مومن دشمن ہی رہے بت سدا 
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا

عمر خیام - از منزل کفر تا بہ دين يک نفس است


از منزل کفر تا بہ دين يک نفس است
و ز عالم ِ شک تا بہ یقین یک نفس است
این یک نفس عزیز عمر ما ہمیں یک نفس است
کز حاصل عمر ما ہمیں یک نفس است

ساحر - اے رہبر ملک و قوم بتا

3/22/2013


آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا 
کچھ ہم بھی سنیں ، ہم کو بھی بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں 
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں 
سڑکوں کی زباں چلاتی ہے، ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں 

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

وہ کون سا جذبہ تھا جس سے فرسودہ نظام زیست ملا 
جھلسے ہوئے ویراں گلشن میں اک آس امید کا پھول کھلا 
جنتا کا لہو فوجوں سے ملا ، فوجوں کا لہو جنتا سے ملا 

اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 
اے رہبر ملک و قوم بتا 

کیا قوم وطن کی جے گا کر مرتے ہوئے راہی غنڈے تھے 
جو دیس کا پرچم لے کے اٹھے وہ شوخ سپاہی غنڈے تھے 
جو بار غلامی سہہ نہ سکے ، وہ مجرم شاہی غنڈے تھے 

یہ کس کا لہو ہے کون مرا 
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

اے عزم فنا دینے والو! پیغام بقا دینے والو 
اب آگ سے کیوں کتراتے ہو؟ شعلوں کو ہوا دینے والو 
طوفان سے اب ڈرتے کیوں ہو؟ موجوں کو صدا دینے والو 

کیا بھول گئے اپنا نعرہ 
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

سمجھوتے کی امید سہی، سرکار کے وعدے ٹھیک سہی 
ہاں مشق ستم افسانہ سہی، ہاں پیار کے وعدے ٹھیک سہی 
اپنوں کے کلیجے مت چھیدو اغیار کے وعدے ٹھیک سہی 

جمہور سے یوں دامن نہ چھڑا 
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

نامعلوم - جوش جوانی ہے، ذرا جھوم کے چلتے ہیں

3/19/2013

ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا شعر

جوش جوانی  ہے ، ذرا  جھوم  کے چلتے ہیں
لوگ سمجھتے ہیں، ڈرائیور کچھ پی کے چلتے ہیں

شورش کاشمیری - فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے

فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے

خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے

فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے

قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے

نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے

اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے

اقبال - میرِ سپاہ ناسزا، لشکر یاں شکستہ صف

میرِ  سپاہ  ناسزا،  لشکر یاں  شکستہ  صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

تیرے   محیط  میں  کہیں   گوہرِ   زندگی   نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف

عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش  و  نگار  دَیر   میں   خونِ   جگر  نہ  کر  تلف

کھول کے کیا بیاں کرو سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ باشرف،  مرگ حیاتِ  بے شرف

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم  سر بکف

مثلِ  کلیم   ہو   اگر   معرکہ    آزما    کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لاتخف

خیرہ نہ  کر  سکا  مجھے  جلوۂ  دانش  فرنگ
سرمہ  ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ  و  نجف

اقبال - ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست

ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر و   بر  در  گوشہ دامان اوست

سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ  عشق  نبی  از  حق طلب

زاں کہ ملت را حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات  از   عشق  اوست

روح را  جز  عشق  او  آرام نیست
عشق او روز یست کو راشام نیست

حفیظ جالندھری - سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی

سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی
سلام اے  فخرِ  موجودات، فخرِ  نوعِ  انسانی

سلام اے ظِلِ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی
تِرا نقشِ  قدم  ہے  زندگی  کی  لوحِ  پیشانی

سلام اے سِرِ وحدت، اے سِراجِ بزم ایمانی
زہے  یہ  عِزت افزائی،  زہے  تشریف  ارزانی

تِرا در ہو، مِرا سر  ہو  مِرا  دل  ہو،  تِرا  گھر  ہو
تمنا    مختصر    سی     ہے     مگر     تمہید     طولانی

سلام   اے   آتشیں   زنجیرِ    باطل   توڑنے   والے
سلام اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے

ساحر - یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟

یہ   شاہراہیں  اسی   واسطے   بنی   تھیں  کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے

زمیں نے کیا  اسی کارن اناج  اگلا تھا؟
کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے

ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی  ہیں؟
کہ  دختران  وطن  تار  تار  کو   ترسیں

چمن کو اس لئے مالی نے خون سے سینچا تھا؟
کہ  اس  کی  اپنی   نگاہیں  بہار   کو   ترسیں

نامعلوم - مرے گیت - مرے سرکش ترانے سن کر دنیا یہ سمجھتی ہے

مرے  سرکش ترانے  سن کر  دنیا  یہ  سمجھتی  ہے
کہ شاید میرے دل کو عشق کے نغموں‌سے نفرت ہے

مجھے  ہنگامہ  جنگ  و  جدل  میں کیف  ملتا   ہے
مری فطرت کو خوں ریزی کے افسانوں سے رغبت ہے

مری دنیا میں کچھ وقعت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
مرا   محبوب   نغمہ    شورِ    آہنگِ   بغاوت    ہے

مگر اے کاش دیکھیں وہ مری پرسوز راتوں کو
میں‌جب تاروں‌ پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں

تصور  بن  کے  بھولی  وارداتیں  یاد   آتی  ہیں
تو سوز و درد کی شدت سے پہروں تلملاتا ہوں

کوئی خوابوں میں‌ خوابیدہ امنگوں‌ کو جگاتی  ہے
تو اپنی زندگی کو  موت کے  پہلو  میں  ‌پاتا  ہوں

میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا    دل   دشمن   نغمہ   سرائی    ہو    نہیں‌  سکتا

مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا  مقصد  فقط  شعلہ  نوائی  ہو  نہیں  سکتا

جواں‌ ہوں میں، جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مری  باتوں‌  میں  رنگ  پارسائی  ہو   نہیں‌  سکتا

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت  ہے، تو  اتنی  ہے
کہ جب میں‌دیکھتا ہوں‌بھوک کے مارے انسانو‌ں‌کو

غریبوں، مفلسوں‌کو، بےسکوں‌کو، بے سہاروں‌کو
سسکتی   نازنینوں   کو ،  تڑپتے    نوجوانوں‌   کو

حکومت کے  تشدد  کو ،  امارت  کے  تکبر  کو
کسی کے چیتھڑوں کو، اور شہنشاہی خزانوں کو

تو   دل   تابِ   بزم   عشرت   لا   نہیں   سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا

اقبال - من ہیچ نمی ترسم از حادثۂ شب ہا

من ہیچ  نمی ترسم  از حادثۂ  شب  ہا
شبہا کہ سحر گردد از گردش کوکب ہا

نشناخت  مقام   خویش  افتاد  بدام  خویش
عشقی کہ نمودی خواست از شورش یارب ہا

آہی کہ ز دل خیزد از  بہر جگر سوزی است
در  سینہ  شکن  او  را  آلودہ  مکن  لب  ہا

در میکدہ باقی نیست از ساقی فطرت خواہ
آن می کہ نمی گنجد  در شیشۂ مشرب ہا

آسودہ نمی گردد آندل کہ گسست از دوست
با  قرأت  مسجد ہا   با   دانش  مکتب  ہا