ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے
تابِ نظّارہ نہیں ، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر، جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی ، کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سن اے موجِ ہوا ، بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے