اقبال
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموش گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اٹھا ئے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہرطرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اڑالی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستان میری
الٰہی پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
حیات جاوداں میری نہ مرگ ناگہاں میری
مرا رونا نہیں رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
وہ گل ہوں میں خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کرنا داں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں