اقبال
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست
بحروبردر گوشہ دامانِ اوست
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فر قاں وہی یٰسین وہی طہٰ
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں کبھی
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات!
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
خیر ہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سر مہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف
بمصطفےٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
اگربہ او نر سیدی تمام بولہبی ست
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں