ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ آخرِ شب، صرف
اب اس کے بعد تمھارے لئے ہیں رنگ سبھی
سبھی رتیں، سبھی موسم، تمھیں سے مہکیں گے
ہر ایک لوحِ زماں پر تمھارے نام کی مہر
ہر ایک صبح تمہاری جبیں پہ سجدہ گزار
طلوعِ مہرِ درخشاں، فروغِ ماہ تمام
اب اس کے بعد تمھارے لئے ہیں رنگ سبھی
سبھی رتیں، سبھی موسم، تمھیں سے مہکیں گے
ہر ایک لوحِ زماں پر تمھارے نام کی مہر
ہر ایک صبح تمہاری جبیں پہ سجدہ گزار
طلوعِ مہرِ درخشاں، فروغِ ماہ تمام
یہ رنگ و نور کی بارش تمھارے عہد کے نام
اب اس کے بعد یہ ہو گا، کہ تم پہ ہونا ہے
ورود نعمتِ عظمیٰ ہو یا نزولِ عذاب
تمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے
دلوں کی زخم شماری غمِ جہاں کا حساب
گناہِ وصل کی لذت کہ ہجرتوںکا ثواب
تمام نقش تمھیں کو سنوارنا ہوں گے
رگوں میں زہر کے نشتر اتارنا ہوں گے
اب اس طرح ہے کہ گزرے دنوں کے ورثے میں
تمہاری نظر ہیں، ٹکڑےشکستہ خوابوں کے
جلے ہوۓ،کئی خیمے دریدہ پیراہن
بجھے چراغ ،لہو انگلیاں ،فگار بدن
یتیم لفظ ، ردا سوختہ ، انا کی تھکن
تمھیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے
عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ..ہوں گے
وہ یوں بھی ہے کہ اگر حوصلے سلامت ہوں
بہت کٹھن بھی نہیں راہ گزارِ دشتِ جنوں
یہی کہ آبلہ سے جی نہ اکتائے
جراہتوں کی مشقت سے دل نہ گھبرائے
رگوں سے درد کا سیماب اس طرح پھوٹے
نشاط کرب کا عالم فضا میں طاری ہو
کبھی جو طبل بجے مقتل حیات سجے
تو ہر قدم پہ لہو کی سبیل جاری ہو
جو یوں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر
بہ فیضِ کم نظری داغ بیشمار سہی
ادھر یہ حال کہ موسم خراج مانگتا ہے
ادہر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجل
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسؤں کی چمک
جو کچھہ نہی تو یہی رسمِ روزگار سہی
نہ ہو نصیب رگِ گل تو نوکِ خار سہی
جو ہو سکے تو گریباں کے تار سی لینا
وگرنہ تم بھی ہماری طرح سے جی لینا
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں