اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

شکیب جلالی ـ اتریں عجیب روشنیاں رات خواب میں

2/05/2014


اتریں عجیب روشنیاں رات خواب میں
کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں

کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں
منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں

پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ
پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں

کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں

یوں آئنہ بدست ملی پربتوں کی برف
شرما کے دھوپ لوٹ آ گئی آفتاب میں

جینے کے ساتھ موت کا ہے ڈر لگا ہوا
خشکی دکھائی دی ہے سمندر کو خواب میں

گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک
اُبھرا ہوا ہوں ڈوب کے تصویرِ آب میں

اک یاد ہے کہ چھین رہی ہے لبوں سے جام
اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں

چوما ہے میرا نام لبِ سُرخ سے شکیب
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

کوئی تبصرے نہیں :