زورِ بیان و قوّتِ اظہار چھین لے
مجھ سے مِرے خدا، مرِے افکار چھین لے
کچھ بِجلیاں اُتار، قضا کے لباس میں
تاج و کُلاہ و جبّہ و دستار چھین لے
عِفّت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر
نظّارہ ہائے گیسو و رُخسار چھین لے
شاہوں کو اُن کے غرّۂِ بے جا کی دے سزا
محلوں سے اُن کی رفعتِ کہسار چھین لے
میں اور پڑھوں قصیدۂ اربابِ اقتدار
میرے قلم سے جُرأتِ رفتار چھین لے
اربابِ اختیار کی جاگیر ضبط کر
یا غم زدوں سے نعرۂ پَیکار چھین لے