غم عاشقی سے کہہ دو راہ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت میرے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا کہ یہ دل نے بدعا دی
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
انھیں اپنے دل کی خبریں میرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جائوں تو پیام تک نہ پہنچے
یہ ادا یہ بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے