(1)
میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک
روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ
لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک
تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں
خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک
باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام
حفظ بدن کے لیے روح کو کردوں ہلاک!
اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!