الزام اسی پر ہے برہنہ بدنی کا
جس شخص نے آغاز کیا بخیہ زَنی کا
خورشید نکالوں گا بہ ہر ضربتِ تیشہ
دریا نہیں معیار مری کوہکنی کا
توڑوں گا سب اصنامِ غزل کعبۂ فن میں
ورثے میں مجھے اِذن ملا بت شکنی کا
اک میں ہی نمایاں ہوں سب آشفتہ سروں میں
سو حکم ہے میرے لئے گردن زدنی کا
ایسے میں بھی عثمان سزاوارِ سخن ہے
ہر چند کہ چرچہ ہے دریدہ دہنی کا