اے آتشِ تبسم و اے شبنمِ جمال
خاموش آنسووں کی طرح جل رہے ہیں ہم
تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ دانش کے باوجود
برسوں تیری خیال میں پاگل رہے ہیں ہم
ہر بزمِ رنگ و رقص میں شرکت کے ساتھ ساتھ
تنہا رہے ہیں اور سرِ مقتل رہے ہیں ہم
دیکھا ہے تو نے ہم کو بہاراں کے روپ میں
مجروح قافلے کی طرح چل رہے ہیں ہم
سب سے عزیز دوست کی خوشیوں کی راز دار
زخموں کی داستانِ مفصل رہے ہیں ہم
سب سے بڑے گناہ کی حسرت کے رو برو
تیرے لیے خلوصِ مسلسل رہے ہیں ہم
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں