غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ
پہنچے سرِ صلیب فقط بے نشان لوگ
اخلاقیاتِ عشق میں شامل ہے یہ نیاز
ہم ورنہ عادتاً ہیں بہت خود گمان لوگ
چھوٹی سی اک شراب کی دکان کی طرف
گھر سے چلے ہیں سن کے عشاء کی اذان لوگ
دل اک دیارِ رونق وَرم ہے لٹا ہوا
گزرے اس طرف سے کئی مہربان لوگ
اے دل انہی کے طرزِ تکلم سے ہوشیار
اس شہر میں ملیں گے کئی بے زبان لوگ
آیا تھا کوئی شام سے واپس نہیں گیا
مُڑ مُڑ کے دیکھتے ہیں ہمارا مکان لوگ
ان سے جنہیں کنوئیں کے سوا کچھ خبر نہیں
مغرب کا طنز سنتے ہیں ہم نوجوان لوگ
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں