رہ عاشقی کے مارے رہ عام تک نہ پہنچے
کبھی صبح تک نہ پہنچے کبھی شام تک نہ پہنچے
مجھے مست اگر بنا دے یہ نگاہ مست تیری
میرا ہاتھ کیا نظر بھی کبھی جام تک نہ پہنچے
مجھے اپنی بیکسی کا نہیں غم خیال یہ ہے
کہیں بات بڑھتے بڑھتے تیرے نام تک نہ پہنچے
جو یہ دور بیوفا ہے تیرا غم تو مستقل ہے
وہ حیات عاشقی کیا جو دوام تک نہ پہنچے
یہ انوکھی برہمی ہے کہ نہ بھولے سے لبوں پر
بر سبیل تذکرہ بھی میرے نام تک نہ پہنچے
کہیں اس طرح بھی روٹھے نہ کسی سے کوئی یحییٰ
کہ پیام تک نہ آئے کہ سلام تک نہ پہنچے