خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری ہو جائے
جبکہ اس شعر کا مصرع ثانی یوں مشہور ہے۔
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری مل جائے
اس شعر کے خالق 'نواب امین الدولہ مہر' ہیں۔
ایک اور شعر عموماً ایسے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے ، دیکھو چاند بن گہنے
اصل شعر کچھ یوں ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنما لگتا ہے ، جیسے چاند کو گہنا
شاعر: شاہ مبارک آرزو
مشہور شعر جو راجہ رام نرائن نے نواب سراج الدولہ کی وفات پر لکھا تھا۔ ہم نے تو اس کو یوں پڑھا تھا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟
مؤلف کی تحقیق کے مطابق مصرع ثانی یہ ہے۔
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا؟
اسی طرح مرزا رفیع سودا کے مشہور شعر
گل پھینکو ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
میں پہلا مصرعہ یوں بتایا گیا ہے۔
'گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی'
میر تقی میر کا یہ شعر ہمیشہ یوں ہی پڑھا۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
جبکہ مؤلف کے مطابق اصل شعر ہے
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر ہی کا ایک اور شعر۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اصل متن
میر کیا سادے ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں'
'شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'
یہ میر کا شعر سمجھا جاتا ہے لیکن صاحبِ تالیف کے مطابق یہ شعر ایک اور شاعر 'محمدیار خان امیر' کا ہے اور اصل شعر یوں ہے۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے ، لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی' اس کا مصرع اولیٰ اور شاعر کا نام تو معلوم ہوا ہی، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصرعے میں بھی الفاظ کی کچھ ترمیم ہو چکی ہے۔
صاحبِ کتاب کے بقول یہ شعر ایک گمنام شاعر ‘جہاندار شاہ جہاندار’ کا ہے اور اصل میں کچھ یوں ہے۔
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک، جہاں کا خمیر ہو'
اسی طرح
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ سے
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
کتاب میں اس شعر کے اصل شاعر کا نام 'عظیم بیگ عظیم' اور اصل شعر یوں نقل کیا گیا ہے۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
ابراہیم ذوق کا شعر
پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
یوں بیان کیا گیا ہے۔
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
'سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے' کا پہلا مصرعہ اور شاعر کا نام یوں بیان کیا گیا ہے کہ
اگر بخشے، زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
شاعر اصغر خان اصغر
بہادر شاہ ظفر سے منسوب مشہورِ زمانہ غزل 'نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں' کو صاحبِ تالیف نے شاعر'جاں نثار حسین اختر' کے والد 'مضطر خیر آبادی' سے منسوب کیا ہے۔ اور اس غزل کے چار مزید اشعار بھی درج کئے ہیں۔
میں نہیں نغمۂ جانفزا، کوئی مجھ کو سن کے کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا ، مرا رنگ و روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا ، میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں