اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

ہم بھی گۓ تھے گرمی بازار دیکھنے

6/01/2011

ہم  بھی  گۓ  تھے  گرمی  بازار  دیکھنے
وہ بھیڑ تھی کہ چوک میں تانگہ الٹ گیا

شورش - واپسی - اعلان تاشقند

موج گل واپس کریں باد صبا واپس کریں
شہریاروں سے کہیں میری نوا واپس کریں

میں نے جو کچھ بھی لکھا حرف غلط ثابت ہوا
میں نے جو کچھ بھی کہا نغمہ سرا واپس کریں

مسندوں پر جادہ شب کے مسافر خوش رہیں
سرفروشوں کی مگر خونیں قبا واپس کریں

آستین کے خنجروں کی تیز دھاروں کے امین
ماوں کے بیٹوں کا خون ناروا واپس کریں

نقد جاں ، نقد شہر ، نقد فغاں
دیکھنا ہے کہ خطیب شہر کیا واپس کریں

حافظ - زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

زبان یار من  ترکی   و  من ترکی نمی   دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش دردہان من
مصاحبین
حضور ہم دس برس سے حاشیہ بردار اولٰی ہیں
عمومی شور و غل شہروں کی دیرینہ طبیعت ہے
سیاسی کھیل ہیں، شوریدہ سر ہلڑ مچاتے ہیں
انہیں لیڈر نچاتے ہیں
ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں
اگر ہم جیل بھجوائیں
تو اکثر تلملاتے ہیں
حضور! ہم خانہ زادِ سلطنت سجدے لٹاتے ہیں
شاہ
بکو مت چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
یہاں کیا ہو رہا ہے، کون سا شیطان اٹھا ہے
جھروکے سے اُدھر دیکھو، یہ کیا طوفاں اٹھا ہے
دمادم، پے بہ پے ایوب مردہ باد کے نعرے؟
افق پر بے تحاشا جھملاتی شام کے تارے
گرجتے گونجتے الفاظ میں تقریر کے پارے
بکو مت، چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
ایک اور مصاحب داخل ہو کر آداب بجا لاتا ہے
مصاحب
امیر المومنین! بالی عمریا کا وزیر آیا
بہتر نشتروں میں ایک نشتر میر صاحب کا
بہ قول آنجہانی شیخ، چہرہ ماہتابی ہے
طبیعت آفتابی ہے
خدا جانے؟ سنا ہے
بچپنے ہی سے شرابی ہے
شاہ
بلا لاؤ، اکیلا ہے
کہ کوئی دوسرا بھی ہے؟
مصاحب
جماعت کے بہت سے منچلے بھی ساتھ آئے ہیں
غزلہائے ہفت خواں کے ولولے بھی ساتھ آئے ہیں
جوانی ناگنوں کے رنگ میں آواز دیتی ہے
دل سد رہ نشیں کو طاقت پرواز دیتی ہے
بالی عمریا کا وزیر دربار میں داخل ہو کر قدم بوس ہوتا ہے
شاہ
چپڑ غٹو، الل ٹپو، نکھٹو، دًم کٹے ٹٹو
فضا لاہور کی ہنگامہ پرور ہوتی جاتی ہے
کہاں ہو؟ کس طرف ہو؟ دیکھتے کیا ہو میاں لٹو
جماعت کی صدارت اس لیے تم کو عطا کی ہے
عوام الناس بازاروں میں نعرہ باز ہو جائیں
سیاسی مسخرے اس دور کے شہباز ہوجائیں
ارے گھسیٹے، ارے بچھیے کے باوا
سوچتا کیا ہے؟
وزیر
امیر المومنین!۔۔۔۔ ہم بندگانِ خاص کے آقا
ہم ایسے سینکڑوں سرکارِ عالی پر نچھاور ہیں
یقیں کیجیے، حریفوں کے مقابل میں دلاور ہیں
جری ہیں، جانتے ہیں بچپنے سے جاننے والے
کہ ہم ہیں آپکو ظلِ الٰہی ماننے والے
مرے قبلہ، مرے آقا، مرے مولا، مرے محسن
سوائے چند اوباشوں کے، ساری قوم خادم ہے
سیاسی نٹ کھٹوں کی گرم گفتاری پر نادم ہے
شاہ
بکو مت، چپ رہو، یہ ہم سمجھتے ہیں یہاں کیا ہے
وہ مودودی کے فتنے اور نصر اللہ کے شوشے
وہ پاکستان مسلم لیگ کے بھڑکے ہوئے گوشے
ڈیورنڈ روڈ کا وہ شاطرِ اعظم، معاذ اللہ
کوئی ٹکرائے اس شہباز سے، یہ تاب ہے کس میں؟
کوئی ایسا بھی ہے، یہ جوہرِ نایاب ہے کس میں؟
وہ کائیاں چودھری یعنی وزیراعظم سابق
پڑا ہے لٹھ لیے پیچھے مرے اور ضرب ہے کاری
تمہیں معلوم ہے عبد الولی خاں کی سیہ کاری؟
وہ بھٹو، جو مجھے کہتا تھا ڈیڈی، اب کہاں پر ہے
کہ سخت گفتنی نا گفتنی اس کی زباں پر ہے
وہ شورش جس نے بھوک ہڑتال سے لرزا دیا سب کو
تمہیں معلوم ہے بد بخت نے تڑپا دیا سب کو
قصوری اور شوکت کس لیے آزاد پھرتے ہیں
انہیں زنداں میں ڈلواؤ، دار پر کھنچواؤ، مرواؤ
ہمارا حکم ہے ان سب کے خنجر گھونپتے جاؤ
جسارت اس قدر؟ اب گالیاں دینے پہ اترے ہیں
سیاسی نٹ کھٹوں کے بیچ بازاریوں کے نخرے ہیں
کچھ دیر چپ رہنے کے بعد حکومت کی ایک رقاصہ سے
شاہ
اری نازک بدن، زہرہ ادا، گوہر صفت لیلٰی
ترے قربان، بوڑھی ہڈیوں میں جان آ جائے
رخِ زیبا
پہ غازہ ہے مگر سی آئی اے کا ہے
کوئی داؤ بتا، یہ بے تکا طوفان تھم جائے
ہمارا پاؤں اکھڑا جا رہا ہے پھر سے جم جائے
بتا نور جہاں، نورِ نظر، رقاصۂ عالم
ہماری ذات اقدس سے عوام الناس ہیں برہم
رقاصہ
مرے آقا! اجازت ہو تو میری بات اتنی ہے
شریروں کی ہمارے ملک میں تعداد کتنی ہے؟
یہی دو چار مُلا، پانچ چھ لڑکے شریروں سے
پرانے گھاگ لیڈر، جیل خانے کے اسیروں میں
انہیں زہر اب دے کر گولیوں سے کیجیے ٹھنڈا
کہ شوریدہ سروں کی ڈار کا استاد ہے ڈنڈا
یہ سب گستاخ ہیں، ان کے لیے تعزیر واجب ہے
یہ سب غدار ہیں، ان کے لیے زنجیر واجب ہے
یہ سب بزدل مسافر موت کے ہیں، موت پائیں گے
کسی حیلے بہانے سے نہ ہر گز باز آئیں گے
شاہ
بہت اچھا، ہم اب ان کے لیے اعلان کرتے ہیں
بس ان کی ناگہانی موت کا سامان کرتے ہیں
مارچ کو ورق الٹ جاتا ہے
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
الٹ ڈالا، عوام الناس سے فرعون کا تختہ
طنابیں ٹوٹتی ہیں، شاہ زادے تھر تھراتے ہیں
وہ گوہر جان نے لاہور کو رخت سفر باندھا
وہ رقاصہ نکل کے پہلوئے اغیار میں پہنچی
کٹی شب دختِ رز پیمانۂ افکار میں پہنچی
سیاسی ڈوم ڈھاری چل بسے، شورِ فغاں اٹھا
زمانے کی روش پر ایک سیلاب رواں اٹھا
بہت سی قمریوں سے باغبانوں کو ہلا ڈالا
کئی ذروں نے مل کر آسمانوں کو ہلا ڈالا
عوام الناس جاگ اٹھیں،تو ناممکن ہے سو جائیں
علی بابا کے چوروں کی زبانیں گنگ ہو جائیں
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری ہو جائے
جبکہ اس شعر کا مصرع ثانی یوں مشہور ہے۔
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری مل جائے
اس شعر کے خالق 'نواب امین الدولہ مہر' ہیں۔

ایک اور شعر عموماً ایسے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے ، دیکھو چاند بن گہنے
اصل شعر کچھ یوں ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنما لگتا ہے ، جیسے چاند کو گہنا
شاعر: شاہ مبارک آرزو

مشہور شعر جو راجہ رام نرائن نے نواب سراج الدولہ کی وفات پر لکھا تھا۔ ہم نے تو اس کو یوں پڑھا تھا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟
مؤلف کی تحقیق کے مطابق مصرع ثانی یہ ہے۔
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا؟

اسی طرح مرزا رفیع سودا کے مشہور شعر
گل پھینکو ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
میں پہلا مصرعہ یوں بتایا گیا ہے۔
'گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی'

میر تقی میر کا یہ شعر ہمیشہ یوں ہی پڑھا۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
جبکہ مؤلف کے مطابق اصل شعر ہے
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

میر ہی کا ایک اور شعر۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اصل متن
میر کیا سادے ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں'

'شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'
یہ میر کا شعر سمجھا جاتا ہے لیکن صاحبِ تالیف کے مطابق یہ شعر ایک اور شاعر 'محمدیار خان امیر' کا ہے اور اصل شعر یوں ہے۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے ، لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی' اس کا مصرع اولیٰ اور شاعر کا نام تو معلوم ہوا ہی، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصرعے میں بھی الفاظ کی کچھ ترمیم ہو چکی ہے۔
صاحبِ کتاب کے بقول یہ شعر ایک گمنام شاعر ‘جہاندار شاہ جہاندار’ کا ہے اور اصل میں کچھ یوں ہے۔
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک، جہاں کا خمیر ہو'

اسی طرح
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ سے
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
کتاب میں اس شعر کے اصل شاعر کا نام 'عظیم بیگ عظیم' اور اصل شعر یوں نقل کیا گیا ہے۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے

ابراہیم ذوق کا شعر
پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
یوں بیان کیا گیا ہے۔
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے

'سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے' کا پہلا مصرعہ اور شاعر کا نام یوں بیان کیا گیا ہے کہ
اگر بخشے، زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
شاعر اصغر خان اصغر

بہادر شاہ ظفر سے منسوب مشہورِ زمانہ غزل 'نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں' کو صاحبِ تالیف نے شاعر'جاں نثار حسین اختر' کے والد 'مضطر خیر آبادی' سے منسوب کیا ہے۔ اور اس غزل کے چار مزید اشعار بھی درج کئے ہیں۔

میں نہیں نغمۂ جانفزا، کوئی مجھ کو سن کے کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا ، مرا رنگ و روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا ، میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں