شاعر
غمِ دوراں نے بھی سیکھے غمِ جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
کس کو دیکھا ہے کہ پندارِ نظر کے با وصف
اِک لمحے کیلئے رک گئی دل کی دھڑکن
کونسی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
ہم کو پرواہِ گریباں ہے نہ فکرِ دامن
ایسی سُونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیِ صبحِ وطن