نذرِ داغ
اُمید و بیمِ دست و بازوئے قاتل میں رہتے ہیں
تمہارے چاہنے والے بڑی مشکل میں رہتے ہیں
نکل آ اب تو ان پردوں سے باہر، دُخترِ صحرا
کہ باہر کم ہیں وہ طوفان جو محمل میں رہتے ہیں
جنہیں دیکھا نہیں دنیا کی بے تعبیر آنکھوں نے
بہت سے لوگ ان خوابوں کے مستقبل میں رہتے ہیں
چلو افلاک کے زینوں پہ چڑھ کے عرش تک پہنچیں
کہ سید مصطفی زید ی اسی منزل میں رہتے ہیں
اُمید و بیمِ دست و بازوئے قاتل میں رہتے ہیں
تمہارے چاہنے والے بڑی مشکل میں رہتے ہیں
نکل آ اب تو ان پردوں سے باہر، دُخترِ صحرا
کہ باہر کم ہیں وہ طوفان جو محمل میں رہتے ہیں
جنہیں دیکھا نہیں دنیا کی بے تعبیر آنکھوں نے
بہت سے لوگ ان خوابوں کے مستقبل میں رہتے ہیں
چلو افلاک کے زینوں پہ چڑھ کے عرش تک پہنچیں
کہ سید مصطفی زید ی اسی منزل میں رہتے ہیں