وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے
وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے
زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا
صرف مر مر کے جیئے جانے سے کیا ہوتا ہے
تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو
غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں
ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں
ارتقاء کی نئی منزل پہ مصور کی نگاہ
اپنی تصویر کے انداز بدل جاتی ہے
زاویئے پاؤں کے ہر رقص میں ہو تے ہیں جدا
ہر نئے ساز پہ آواز بدل جاتی ہے
یہ مرا جرم نہیں ہے کہ جرس کے ہمراہ
میں نئی راہ گزاروں پہ نکل آیا ہوں
میرے معیار نے اک اور صنم ڈھال لیا
میں ذرا دور کے دھاروں پہ نکل آیا ہوں
پھر بھی تقدیر کو اس کھیل میں کیا لطف ملا
(تیرے نزدیک جو ہم معنیِ الزام بھی ہے)
آج جس سے مرے آنگن میں دیئے جلتے ہیں
تیری ہم شکل بھی ہے اور تیری ہم نام بھی ہے