قبال
آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر!
کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں!
کلبہ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے!
قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدئہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں
ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دور بھی
ہیں پس نہ پردئہ گردوں ابھی اور بھی