میرے محبوب وطن کی گلیو!
تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام
اپنے زخمی شباب کو تسلیم
اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام
عمر بھر کے لیے تمھارے پاس
رہ گئی ہے شگفتگی میری
آخری رات کے اداس دیو!
یاد ہے تم کو بے بسی میری؟
یاد ہے تم ک جب بھلائے تھے
عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے
رسم و مذہب کی اک پجارن نے
ایک چاندی کے دیوتا کے لیے
جانے اس کارگاہِ ہستی میں
اس کو وہ دیوتا ملا کہ نہیں
میری کلیوں کا خون پی کے بھی
اس کا اپنا کنول کھلا کہ نہیں
سنا آج کل اس کے دامن میں
پیار کے رنگ ہیں کہ پیسے ہیں
تم کو معلوم ہو تو بتلانا
اس کے آنچل کے رنگ کیسے ہیں
مجھ کو آواز دو کہ صبح کی اوس
کیا مجھے ابھی یاد کرتی ہے؟
میرے گھر کی اداس چوکھٹ پر
کیا کبھی چاندنی اتری ہے؟