حرفِ سادہ
معاشرانِ خراباتِ حرفِ سادۂ مئے
زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے
قتیلِ زمزمۂ وصلِ نالۂ ہجراں
نوائے حسرتِ غیر عاشقانہ بھی سنتے
روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے
حقیقتِ اذلی کا ترانہ بھی سنتے
اس انتہائے جلال و جمال سے آگے
خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے
زکوٰۃ دل کبھی دیتا غرورِ کج کُلہی
نکاتِ ذہن کبھی عاجزانہ بھی سنتے
یہ دوڑتی ہوئی راتیں، یہ بھاگتے ہوئے دن
صدائے مسئلۂ جاودانہ بھی سنتے
حدیث کی روشِ عامیانہ سے ہٹ کر
خِرد کا تذکرۂ عالمانہ بھی سنتے
یہ قِراتوں کے دھوئیں میں گھٹے ہوئے ماحول
ہوا کا زمزمۂ بیکرانہ بھی سنتے
سیاسیاتِ و تمدن کے ناز پروردہ
صعوبتِ قفس و تازیانہ بھی سنتے
یہ قید و بند یہ تعزیر عام باتیں
شکایتِ دل و جاں مشفقانہ بھی سنتے
سزا جزا کے عوض آدمی سے عرضِ حیات
وفا جفا کی طرح دوستانہ بھی سنتے
مصاحبوں نے بہت کچھ جنہیں بتایا ہے
زبانِ خلقِ خدا غائبانہ بھی سنتے
غرورِ عشق کو خوئے نیاز سے ملتے
تعّلیوں کو مِری شاعرانہ بھی سنتے