کب ٹھرہے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی ، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ٫ تر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی راہ دیکھیں اے قامت جانا نہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی