خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہيں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تيرا
حيات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہيں
گراں بہا ہے تو حفظ خودي سے ہے ورنہ
گہر ميں آب گہر کے سوا کچھ اور نہيں
رگوں ميں گردش خوں ہے اگر تو کيا حاصل
حيات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہيں
عروس لالہ مناسب نہيں ہے مجھ سے حجاب
کہ ميں نسيم سحر کے سوا کچھ اور نہيں
جسے کساد سمجھتے ہيں تاجران فرنگ
وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہيں
بڑا کريم ہے اقبال بے نوا ليکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہيں