اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

ازہر ۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

6/06/2013


میرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی

مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی

میں دیکھتا ہوں ہر سمت پنچھیوں کے ہجوم
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی

قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو
کہ سرکشوں کو تو عادت ہے سر اٹھانے کی

شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہرٹھکانے کی

ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی

ساحر ۔ کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے


کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی
تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 
یہ رنج و غم کی سیاہی جو دل پہ چھائی ہے 
تیری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی 
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے 
کہ تو نہیں، تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں۔ 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
اِسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ 
مچل رہی ہے اندھیروں میں زندگی بھی 
انہی اندھیروں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 
میں جانتا ہوں میرے ہم نفس 
مگر یوں ہی 

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم ہو کر 
تیرے جمال کی رعنائوں میں کھو رہتا 
تیرا گداز بدن تیری نیم باز آنکھیں 
انہی حسین فسانوں میں محو رہتا 
پکارتیں جب مجھے تلخیاں زمانے کی 
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ‌ پی لیتا 
حیات چیختی پھری برہنہ سر اور میں 
گھنیری زلفوں کے سائے میں‌ چھپ کے جی لیتا 
مگر یہ نہ ہو سکا اور اب یہ عالم ئے 
کہ تو نہیں ترا غم تری جستجو بھی نہیں 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں‌ گلے 
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے 
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں 
حیات و موت کے پر ہول خار زاروں سے 
نہ کوئ جدو منزل نہ روشنی کا سراغ 
بھٹک رہی ہے خلاؤں‌ میں زندگی میری 
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں کا کبھی کھو کر 
میں جانتا ہوں میری ہمنفس مگر یونہی
 
کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے 
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے 
تو اب سے پہلے ستاروں میاں بس رہی تھی کہیں 
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں 
یہ گیسوئوں کی غنی چھاؤں ہیں میری خاطر 
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کہ جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں 
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں 
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی 
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی 
میں جانتا ہوں تگ ہر ہے مگر یوں ہی 

کبھی کبھی میرے دل میں‌خیال آتا ہے 
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں 
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 
یہ تیرگی جو میری زیست کا مقدر ہے 
تیری نظر کی شعاعوں‌میں‌کھو بھی سکتی تھی 
عجب نہ تھا کہ میں‌ بے گانہ الم ہو کر 
تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا 
تیرا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں 
انہی حسین فسانوں میں‌محو ہو رہتا 
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی 
تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا 
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں 
گھنیری زلفوں کے سایہ میں‌چھپ کے جی لیتا
 
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے 
کہ تو نہیں‌تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
زمانے بھر کے دکھوں کا لگا چکا ہوں گلے 
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں‌ سے 
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں 
حیات و موت کے پرہول خارزاروں سے 
نہ کوئی جادہ منزل نہ روشنی کا چراغ 
بھٹک رہی ہے خلاؤں ‌میں ‌زندگی میری 
انہی خلاؤں میں‌ رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 
میں‌ جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی 
کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے

خسرو ۔ فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم


عاشق شدم و محرم ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم 
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم
بسیار شدم عاشق دیوانہ ازیں پیش 
آں صبر کہ ہر بار بود ایں بار ندارم
دل پر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن 
از تنگ دلی طاقت گفتار ندارم
خوں شد دل خسرو ز نگہداشتن راز 
چوں ہیچ کسے محرم اسرار ندارم