اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

مصطفی زیدی - بہ نام وطن

12/31/2012

کون ہے جو آج طلبگار نیاز و تکریم
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم

وہی عیّار گھرانے وہی فرزانہ حکیم
وہی تم لائقِ صد تذکرہ و صد تقویم

تم وہی دُشمن احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں

تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی 
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی

اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی

آج تم مجھ سے مری جنس گراں مانگتے ہو
حَلَفِ ذہن و وفادارئ جاں مانگتے ہو

جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو 
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو

اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو

مجھ سے پوچھوگے تو خنجر سےعُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا

تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے 
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے

اپنی آسائش ایک عُمر گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے

علم نے خونِ رگِ جاں‌دیا اور نہ مَرا
علم نے زہر کا ہیمانہ پیا اور نہ مَرا

علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو

عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسوُ

وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا

تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں 
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں

مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
کس کے خرمن کے لیے شعلہء اسرار بنوں

کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں

صُبح کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے

کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بال جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے

یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو

کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار فلک

کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک

دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے

بہ وفادارئ رہ وار و بہ تکریمِ علم
بہ گہر بارئ الفاظ صنا دیدِ عجم

بہ صدائے جرس قافلئہ اہلِ قلم
مجھ کوہرقطرہء خُون شُہدا تیری قسم

منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جُھک پڑے گا در زنداں مرے سر سے پہلے

آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست

نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست

تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں

ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں 
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں

گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں

کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پُھوٹیں گی

کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم 
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم

رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھرکےچُولھےسےاُترتی ہوئی روٹی کی قسم

زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے

ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے 
ایک اک خوشئہ گندم تمہیں کیا کہتا ہے

ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
آگ اچھی ہے کہ دستور  نمو اچھا ہے

محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟

بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
تمغئہ مکر سے سینوں کو سجانے والوں

کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں

دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جُھکا کر آؤ

کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے 
مصر میں جلوہء یوسف کی دکاں جلتی ہے

عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے

چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح

صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں 
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں

کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں

اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں

تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا

کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا

اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ

اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی

کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی

اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ تمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں

اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے

درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے

کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے

رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں 
صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں

اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں

ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے

عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول

طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول

آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی

اقبال - وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی

12/21/2012

وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی 
اسی   کو  آج   ترستے  ہیں  منبر  و  محراب

سنی نہ مصر و فلسطین میں وہ اذاں میں  نے
دیا تھا   جسنے  پہاڑوں  کو  رعشہ   سیماب

اقبال - اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں

اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں 
گفتار     دلبرانہ   ،   کر دار      قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے 
کھویا   گیا   ہے   تیرا   جذب    قلندرانہ

اقبال - در عجم گردیدم و ہم در عرب

در عجم  گردیدم  و  ہم  در  عرب
مصطفے نایاب  و  ارزاں ابو لہب

اقبال أ در بیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است

در بیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است
و تسلسل حیات تعینات وجود بر

استحکام خودی انحصاردارد 

پیکر ھستی ز اثار خودی است
ہر چہ می بینی ز اسرار خودی است 

خویشتن را چون خودی بیدار کرد 
آشکارا عالم پندار کرد 

صد جہان پوشیدہ اندر ذات او 
غیر او پیداست از اثبات او 

در جہان تخم خصومت کاشت است 
خویشتن را غیر خود پنداشت است 

سازد از خود پیکر اغیار را 
تا فزاید لذت پیکار را 

میکشد از قوت بازوی خویش 
تا شود گاہ از نیروی خویش 

خود فریبی ہای او عین حیات 
ہمچو گل از خون وضو عین حیات 

بہر یک گل خون صد گلشن کند 
از پی یک نغمہ صد شیون کند 

یک فلک را صد ہلال وردہ است 
بہر حرفی صد مقال وردہ است 

عذر این اسراف و این سنگین دلی 
خلق و تکمیل جمال معنوی 

حسن شیرین عذر درد کوہکن 
نافہ ئے عذر صد ہوی ختن 

سوز پیہم قسمت پروانہ ہا 
شمع عذر محنت پروانہ ہا 

خامہ ی او نقش صد امروز بست 
تا بیارد صبح فردائی بدست 

شعلہ ہای او صد ابراہیم سوخت 
تا چراغ یک محمد بر فروخت 

می شود از بہر اغراض عمل 
عامل و معمول و اسباب و علل 

خیزد ، انگیزد ، پرد ، تابد ، رمد
سوزد ، افروزد ، کشد ، میرد ، دمد 

وسعت ایام جولانگاہ او
اسمان موجی ز گرد راہ او 

گل بجیب فاق از گلکاریش
شب ز خوابش ، روز از بیداریش 

شعلہ ی خود در شرر تقسیم کرد
جز پرستی عقل را تعلیم کرد 

خود شکن گردید و اجزا فرید 
اندکے شفت و صحرا فرید 

باز از شفتگی بیزار شد
وز بہم پیوستگی کہسار شد 

وانمودن خویش را خوی خودی است
خفتہ در ہر ذرہ نیروی خودی است 

قوت خاموش و بیتاب عمل 
از عمل پابند اسباب عمل 

چون حیات عالم از زور خودی است 
پس بقدر استواری زندگی است 

قطرہ چون حرف خودی ازبر کند 
ہستنی بے مایہ را گوہر کند 

بادہ از ضعف خودی بی پیکر است 
پیکرش منت پذیر ساغر است 

گرچہ پیکر می پذیرد جام مے 
گردش از ما وام گیرد جام می 

کوہ چون از خود رود صحرا شود
شکوہ سنج جوشش دریا شود 

موج تا موج است در غوش بحر 
می کند خود را سوار دوش بحر 

حلقہ ئے زد نور تا گردید چشم
از تلاش جلوہ ہا جنبید چشم 

سبزہ چون تاب دمید از خویش یافت
ہمت او سینہ ی گلشن شکافت 

شمع ہم خود را بخود زنجیر کرد 
خویش را از ذرہ ہا تعمیر کرد 

خود گدازی پیشہ کرد از خود رمید 
ہم چو اشک خر ز چشم خود چکید 

گر بفطرت پختہ تر بودے نگین 
از جراحت ہا بیاسودی نگین 

می شود سرمایہ دار نام غیر 
دوش او مجروح بار نام غیر 

چون زمین بر ہستی خود محکم است 
ماہ پابند طواف پیہم است 

ہستی مہر از زمین محکم تر است 
پس زمین مسحور چشم خاور است 

جنبش از مژگان برد شان چنار 
مایہ دار از سطوت او کوہسار 

تار و پود کسوت او تش است 
اصل او یک دانہ ی گردن کش است 

چون خودی رد بہم نیروی زیست 
می گشاید قلزمی از جوی زیست 

اقبال - خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعلِ ناب

12/15/2012

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازَد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

شیخِ شہر از رشتۂ تسبیح صد مومن بَدَام
کافرانِ سادہ دل را برہَمَن زنّار تاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

میر و سلطاں نرد باز و کعبتینِ شان دغل
جانِ محکوماں ز تن بُردَند و محکوماں بخواب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

واعظ اندر مسجد و فرزندِ اُو در مدرسہ
آں بہ پیری کودکے، ایں پیر در عہدِ شباب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرَمَن اندر جہاں ارزان و یزداں دیر یاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

شوخیٔ باطل نِگَر، اندر کمینِ حق نشست
شپّرازِ کوری شب خونے زَنَد بر آفتاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

در کلیسا ابنِ مریم را بدار آویختَند
مُصطفٰی از کعبہ ہجرت کردہ با اُمّ الکتاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

من درونِ شیشہ ہائے عصرِ حاضر دیدہ ام
آنچناں زہرے کہ از وے مارہا در پیچ و تاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب

با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند
شعلۂ شاید بروں آید ز فانوسِ حباب

انقلاب، انقلاب، اے انقلاب